۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 403881
31 اکتوبر 2024 - 07:00
محمد بشیر دولتی

حوزہ/قومی شعار ہی آزاد قوموں کی نظریاتی و خارجہ پالیسی کا مظہر ہوتا ہے"لا شرقی ولا غربی جمہوری اسلامی" کا نعرہ انقلابِ اسلامی ایران کا اولین شعار ہے، آج بھی انقلابِ اسلامی ایران کی تمام خارجہ و داخلہ پالیسی کا محور یہی نعرہ ہے، ایران کا ایک اور بنیادی نعرہ فلسطین کی حمایت اور غاصب اسرائیل کی مخالفت پر مشتمل ہے۔

تحریر: محمد بشیر دولتی

حوزہ نیوز ایجنسی | قومی شعار ہی آزاد قوموں کی نظریاتی و خارجہ پالیسی کا مظہر ہوتا ہے"لا شرقی ولا غربی جمہوری اسلامی" کا نعرہ انقلابِ اسلامی ایران کا اولین شعار ہے، آج بھی انقلابِ اسلامی ایران کی تمام خارجہ و داخلہ پالیسی کا محور یہی نعرہ ہے، ایران کا ایک اور بنیادی نعرہ فلسطین کی حمایت اور غاصب اسرائیل کی مخالفت پر مشتمل ہے۔

ایران، انقلابِ اسلامی کے آغاز سے ہی اپنی اس خارجہ پالیسی کی بنیاد پر اسی نعرے پر عمل پیرا ہے، یہ پالیسی خالص دینی، مذہبی و انسانی اقدار کی بنیادوں پر جاری ہے، وگرنہ نہ اسرائیل ایران کا ہمسایہ ملک ہے نہ ہی فلسطینی ایرانی یا شیعہ ہیں، جو لوگ فلسطین و لبنان کی جنگ و استقامت کو پراکسی وار سمجھتے ہیں ان کی سمجھ پر استعمار کا پہرہ ہے۔

دیکھا جائے تو ایران اپنی دینی، اخلاقی و انسانی اقدار کی بنیادوں پر اپنی خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

انقلابِ اسلامی ایران خدا کی حاکمیت کے سامنے کسی دوسرے کی حاکمیت و چوہدراہٹ کو قبول نہیں کرتا، بعض سادہ لوح اور بے بصیرت لوگ اب بھی ایران کو روس یا چین کا تابع یا زیر اثر سمجھتے ہیں۔

امریکہ بہادر نے بھی ایران کو اسرائیل پر حملے سے باز رکھنے کے لئے چین اور روس کے ذریعے سفارش کی تھی، ایران نے اس سفارش کو ٹھکرا کر دونوں طاقتوں کو یہ پیغام دیا کہ ہم قومی عزت و وقار اور آزاد خارجہ پالیسی پر کسی بھی طرح کے کمپرومائز نہیں کرتے۔

جب روس اور یوکرائن کی جنگ ہوئی تو روس کو اپنے ہدف کو بہترین طریقے سے ٹارگٹ کرنے والے ڈرونز کی اشد ضرورت تھی، روس کی نظر ایران پہ جا کر رک گئی، روس دیکھ چکا تھا کہ کس طرح سے ایرانی ساختہ ڈرونز یمن سے "ابابیلوں" کے لشکر کی طرح اپنے اہداف کو نشانہ بناکر واپس آتے ہیں، لیکن امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے پیشرفتہ اور جدید ہتھیار ان ڈرونز کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے، ایران نے روس سے ڈرونز کے بدلے ہزاروں ٹن گندم کی شرط رکھی، جنگ کرنے والے ملک کے لئے گندم برآمد کرنا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے، لیکن روس ایران کے مطالبے کے سامنے ڈھیر ہوا اور جنگی حالت میں بھی ہزاروں ٹن کی تعداد میں گندم دینے پر مجبور ہوا۔

اسی طرح گیس برآمد کرنے والے عالمی ممالک کے درمیان صدارت کے لئے انتخابات ہو رہے تھے، ایک طرف روس اور دوسری طرف قطر امیدوار تھا، سب نے ہاتھ اُٹھاکر ووٹ کاسٹ کیا، آخر میں ایران کی باری آئی، جبکہ دونوں کے ووٹ برابر ہوگئے تھے، روس سوچ رہا تھا کہ ایران اسے ووٹ دے گا، لیکن خلاف توقع ایران نے قطر کے حق میں ووٹ دیا یوں قطر اوگرا کا صدر بنا۔

روس نے بعد میں شکایت کی تو ایرانی مندوب نے جواب دیا کہ قطر سے ہمارے تعلقات اگرچہ بہتر نہیں ہیں (اس وقت داعش کی وجہ سے ایران قطر تعلقات کافی کشیدہ تھے) مگر قطر ایک اسلامی ملک اور ہم سے بہت قریب ہے، اس لئے قومی مفاد میں قطر کو ووٹ دیا۔

روس اور چین دو بڑی طاقت ہیں، کوئی بھی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا، چین اور روس جہاں سرمایہ کاری کریں، اس علاقے کو امریکہ و برطانیہ کی طرح اپنی کالونی سمجھتے ہیں۔

شہید رئیسی کی شہادت کے بعد چھیاسٹھ ممالک میں سے کسی نے وزیر،کسی نے وزیراعظم، کسی نے صدر، کسی نے پارلیمانی وفد بھیج کر ایران کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا، ان ممالک کی فہرست میں بحرین بھی شامل تھا، بحرین نے سعودی عرب کی پیروی میں ایران سے سفارتی تعلقات ختم کیے تھے، سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد بحرین، ایران سے سفارتی تعلقات کے لئے ہاتھ پیر مارنے لگا۔

اس نازک موقع پر عرب امارات نے چین کے دورے پر بھی ایران کے تین جزیروں پر اپنی ملکیت کا مشترکہ اعلامیہ جاری کروایا تھا، اس اعلامیے پر ایران سیخ پا ہوا؛ ان تینوں جزیرے جزیرہ ابوموسیٰ، جزیرہ تنب بزرگ اور جزیرہ تنب کوچک پر انقلابِ اسلامی سے بہت پہلے بھی ایران کا ہی قبضہ ہے، تمام عالمی بین الاقوامی قوانین ایران کے حق میں موجود ہیں۔

انقلابِ اسلامی کے بعد عرب امارات کا ان جزیروں پر دعویٰ ہے، جبکہ عرب امارات، بحرین اور آذربائجان وغیرہ پہلے ہی ایران کا حصہ تھے، مذکورہ تینوں جزائر در اصل جیو پولیٹیکل کی حیثیت اور اسٹراٹیجک اہمیت کے حامل جزائر ہیں، ان چھوٹے جزائر پر تسلط کا مطلب "تنگہ ہرمز" پر گرفت کو مضبوط کرنا ہے۔

عالمی طاقتیں اس تنگہ ہرمز پر ایران کی مضبوط گرفت کو کمزور کرنے کے درپے ہیں، تاکہ وہ اپنی معیشت کے لئے اس جگہ کو اپنی کالونی بنا سکیں، یہی وجہ ہے کہ ایران کے دوست ہونے کے باوجود روس اور چین اس موقع پر متحدہ عرب امارات کے دعویٰ کے حق میں نظر آئے، یہ دونوں ممالک خوب جانتے ہیں کہ اگر یہ جزائر عرب امارات کے ہاتھ لگ جائیں تو ہم اسے اپنی کالونی بنا سکتے ہیں، چونکہ عرب ممالک میں قومی غیرت و حمیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے، لہٰذا وہ آسانی کے ساتھ تنگہ ہرمز کو اپنی کالونی بنا سکیں گے، اپنی اجارہ داری قائم کر سکیں گے، دوسری طرف ایران کبھی بھی بین الاقوامی اصولوں سے لے کر قومی عزت و وقار پر کوئی سودا بازی نہیں کرتا، لہٰذا یہ طاقتیں چاہتی ہیں کہ یہ علاقہ عرب امارات کو ملے۔

حالیہ دنوں میں اسرائیل اور عالمی استعمار کی طرف سے اس مسئلے کو دوبارہ زندہ کیا جارہا ہے؛ اسرائیل کے پاس ایران پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں، مگر وہ اپنی الہ کاروں اور جاسوسوں کے ذریعے خفیہ طریقے سے نقصان پہنچانے کی کوششوں کے ساتھ عرب امارات سمیت داعش، جیش ظلم اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے ذریعے چھپ کر وار کرنے کی کوششوں میں ہے، عرب امارات کو ایران کے مقابلے پر لانے کی جو عالمی کوشش ہو رہی ہے؛ اس وقت اس مسئلے کے اصل محرکوں کو پہچاننا ضروری ہے، لہٰذا اس تھیوری کے اصل خالق کو خود عبرانی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے قارئین کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

تل ابیب یونیورسٹی کے شعبۂ اسٹرٹیجک کے ریٹائر افسر "دانیل لشم" نے 19 فروری 1993 میں ایران کے خطرے کو دور کرنے کے لئے ایک تھیوری پیش کی تھی کہ جس میں اس نے ایران کے ساتھ بھی عراق جیسا سلوک کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ہم فضائی حملے سے ایران کو ختم نہیں کر سکتے، چونکہ ہم ایران کے تمام فوجی ٹھکانوں سے مطلع نہیں ہیں، پس ہمیں چاہیے کہ ہم پہلے خلیج فارس کے تین جزیرے جو ایران کے قبضے میں ہیں، انہیں اپنے قبضے میں لائیں، ان جزائر پر ہمارے قبضے کا مطلب ہے کہ ان میں موجود تیل کے ذخائر کو اپنے قبضے میں لائیں۔

اس نقشے پر عمل پیرا ہونے کے لئے ہمیں ایسا ماحول بنانا چاہیے کہ خلیج فارس کے عرب ممالک خاص طور پر عرب امارات ان جزائر پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کریں پھر ایران، صدام حسین کی طرح جس نے کویت پر حملہ کیا تھا، یہ والی غلطی دہرائے اور امارات پر حملہ کرے، اس سے ہمیں ایران کی فوجی طاقت کا اندازہ ہو جائے گا"، لیکن اسرائیل سمیت استعماری طاقتیں ابھی تک ایران کو اپنے نقشے کے تحت میدان میں اتارنے میں ناکام ہیں، جبکہ ایران اپنی مرضی کے مطابق عالمی و انسانی اصولوں کے مطابق دشمن کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔

عراق، شام اور فلسطین سے لے کر غزہ تک اور افغانستان سے لے کر یمن تک انقلابِ اسلامی ایران اپنے اصولی مؤقف پر کہیں پر بھی دبنے اور جھکنے کے لئے آمادہ نہیں۔

آیت اللہ شہید رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی تشییع جنازہ میں اگرچہ بڑے بڑے عالمی رہنما شریک ہوئے، لیکن جو پروٹوکول اور اہمیت مقاومتی بلاک کے رہنماؤں کو دی گئی، وہ کسی دوسرے کو نہیں دی۔

انصار اللہ یمن کے نمائندے کو ان کے خنجر سمیت رہبر معظم سے ملنے دیا گیا، یہ ایک انتہائی اہم بات تھی، اس کے علاؤہ مقاومتی بلاک کے ساتھ ایرانی انقلابی شخصیات کی خصوصی ملاقات اور میٹنگز نے ثابت کیا کہ ایران اپنی خارجہ پالیسی اور قومی عزت و وقار میں کسی بھی قسم کے کمپرومائز کے لئے تیار نہیں، مجھے اس وقت حقیقی فرزند انقلاب رہبرِ شیعیانِ نائجیریا حجت الاسلام شیخ زکزاکی کی ایک بات یاد آ رہی ہے (آپ نے امام امت کے خط پر چل کر حقیقی فرزند انقلاب ہونے کا عملی ثبوت دیتے ہوئے نہ کبھی کسی کی تکفیر کی، نہ مخالفت کی، بلکہ لاکھوں لوگوں کو تشیع اور ولایت کے دائرے میں داخل کیا) آپ فرماتے ہیں کہ "میرا یقین ہے کہ ایران واحد عالمی طاقت بنے گا اور وہ وقت اب دور نہیں"۔

دیکھا جائے تو ایران کا نائن الیون کے بعد امریکہ کو اپنے دشمن طالبان پر حملہ کرنے کے لئے زمینی و فضائی راستہ نہ دینا اور بعد میں اسی طالبان کی مدد کر کے امریکہ کو افغانستان سے نکالنا، سعودیہ کی طرف سے فضائی محاصرے کے بعد داعش کا سرپرست قطر کو فضائی راہ دینا اور دیگر اشیاء خورد و نوشت پہنچانا۔

اردوغان کے خلاف امریکہ و یورپ کی خفیہ بغاوت کے منصوبے کو ترکی تک پہنچانا، یمن، عراق، شام و لبنان کی سرزمین سے غاصب اسرائیل پر زندگی تنگ کرنا دلیل ہے کہ ایران کسی سے خوفزدہ نہیں، ایران اب ایک عالمی طاقت ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .